اشاعتیں

کیا وائرس ہمارے لیے بیماریوں سے لڑ سکتے ہیں؟

تصویر
بیکٹیریوفیج وائرس وائرس کے متعلق یہی سمجھا جاتا رہا ہے کہ وائرس فقط مہلک بیماریاں پھیلاتے ہیں اور یہ بات سو فیصد درست بھی ہے۔ لیکن اب سائنسدان وائرس کو بیماریوں کے خلاف استعمال کرنے کا طریقہ تلاش کر رہے ہیں۔ اور انہیں وہ طریقہ مل چکا ہے۔ سائنسدان ایک خاص طرح کے وائرس جنہیں بیکٹیریو فیج کہا جاتا ہے کو بیماری پھیلانے والے بیکٹیریا کے خلاف استعمال کرنے کے امکانات تلاش کر رہے ہیں۔ کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کیسے؟ آئیے جانتے ہیں۔ بیکٹیریو فیج دراصل ایسے وائرس ہیں جو فقط بیکٹیریا میں ہی داخل ہوتے ہیں اور صرف بیکٹیریا کو ہی تباہ کرتے ہیں۔ یہ وائرس بیکٹیریا کی بیرونی جھلی کو بھید کر ان میں داخل ہو جاتے ہیں اور بیکٹیریا کی حیاتیاتی مشینری کا استعمال کر کے بیکٹیریا کے اند ہی بہت سارے نئے وائرس بناتے ہیں اور جب کافی وائرس بن جاتے ہیں تو بیکٹیریا کو تباہ کر کے باہر نکل جاتے ہیں۔ اس طرح ایک بیکٹیریو فیج سے ان گنت بیکٹیریو فیج وائرس بن جاتے ہیں جو ہمارے جسم میں موجود بیکٹیریا کو ختم کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔ -:فوائد اس طریقے کا سب سے پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ بیکٹیریا کے خلاف استعمال

وائرس کیا ہیں اس قدر مہلک کیوں ہوتے ہیں؟

تصویر
آپ روز مرہ زندگی میں بہت ساری بیماریوں کے بارے میں  سنتے رہتے ہیں اور اکثر ان بیماریوں کا تعلق کسی نہ کسی وائرس سے ہوتا ہے۔ جسے کہ پولیو، ڈینگی بخار، ایڈز، ہیپاٹائٹس، وغیرہ آج ہم جاننے کو کوشش کریں گے کہ آخر وائرس کیا ہیں اور وائرس ہی کیوں اتنی ہولناک بیماریاں پیدا کرتے ہیں؟ وائرس دراصل ایسے ذرات ہیں جو زندہ خلیوں میں داخل ہو کر انہیں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہاں وائرس کے لیے لفظ ذرات کا استعمال کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک سائنس یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ وائرس زندہ اشیاء ہیں یا نہیں۔ تمام زندہ اشیاء خلیوں پر مشتمل ہیں جبکہ وائرس خلیوں سے نہیں بنے۔ تمام زندہ اشیاء کو توانائی کی ضرورت ہوتی جبکہ وائرس کو توانائی کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔ لیکن وائرس میں چند خوبیاں ایسی بھی ہوتیں ہیں جو زندہ اشیاء میں پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور زندہ اشیاء کی طرح ان میں بھی وراثتی مادہ موجود ہوتا ہے اور اگرچہ وائرس تولید کی صلاحیت نہیں رکھتے لیکن زندہ اشیاء کی طرح یہ بھی اپنی نسل کی تعداد بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ وائرس جاندار ہیں یا بے جان سوال یہ ہے کہ وائ

عظیم پاکستانی سائنسدان اور ان کے سائنسی کارنامے

تصویر
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی ڈاکٹر رفیع محمد چوہدری ڈاکٹر ایوب خان اومایا ڈاکٹر رحمٰن انور سیّد ڈاکٹر عطاءالرحمٰن ڈاکٹر عذرا قریشی ڈاکٹر تسنیم زہرہ حسین ڈاکٹر فاطمہ خانزادی خٹک اس پوسٹ کو اپنے دوستوں کے ساتھ شئیر کیجئے اور ہمیں اپنی رائے سے کمنٹ کے ذریعے آگاہ کیجئے۔

دریافت کیا ہے؟

تصویر
خوردبین دریافت کسی ایسی شے کو دیکھنا جسے سب نے دیکھا ہو مگر اس کے بارے میں ایسا سوچنا جو کسی نے نہ سوچا ہو۔  یہ قول ہے ہنگری کے سائنسدان البرٹ جیورجی کا۔۔ آج تک جتنی بھی دریافتیں ہوئی ہیں ان سب کے پیچھے غیر معمولی ذہن کارفرما تھے اور وہ ذہن غیر معمولی کیوں تھے؟ فقط اس لیے کہ ہم جن چیزوں کو دیکھ کے نظر انداز کر دیتے ہیں وہ ان ہی چیزوں پر غور و فکر کرتے ہیں۔ ان اشیاء کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں اور خود ہی ان سوالوں کے جواب بھی تلاش کر لیتے ہیں۔  یہاں نیوٹن کی مثال لیجیئے نیوٹن نے گرتے ہوئے سیب کو دیکھا اور ایک کائناتی قانون کی دریافت کر لی۔ کیا نیوٹن سے پہلے کسی نے بھی کسی شے کو زمین کی طرف گرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا؟ جی نہیں دنیا کا ہر شخص واقف تھا کہ ہر شے زمین کی طرف ہی گرتی ہے تو پھر نیوٹن میں ایسی کیا خاص بات تھی؟ خاص بات یہ تھی کہ نیوٹن سوچ رہا تھا۔ وہ ایک سوال کا جواب تلاش کر رہا تھا کہ آخر یہ تمام سیارے سورج کے گرد کیوں چکر کاٹ رہے ہیں اور آخر سورج سے دور کیوں نہیں چلے جاتے؟ اور اسی اثناء میں ایک سیب درخت سے نیچے گرتا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ ہر شے زمین کی طرف کیوں گرتی ہے

نظریہ ارتقاء کو سمجھنے کے لیے ضروری لوازمات

تصویر
چارلس ڈارون کا خاکہ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ جب بھی ارتقاء کی بات ہوتی ہے تو ایک لا متناہی بحث کا آغاز ہو جاتا ہے جو کہ فقط بحث برائے بحث بن کر رہ جاتی ہے۔ ایک گروہ نظریہ ارتقاء کی تائید کرتا ہے جبکہ دوسرا گروہ تردید۔ ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کے لیے ہر جتن کام میں لایا جاتا ہے مگر دونوں ہی گروہ اپنے اپنے نظریات پر قائم رہتے ہیں۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ ارتقاء کا نام لیتے ہی دو گروہوں کا ٹکراؤ سامنے آتا ہے؟ آئیے اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔ نظریہ ارتقاء ایک دقیق موضوع ہے جس کو سمجھنے کے لیے ہمیں حیاتیات کی عمیق سمجھ کا ہونا بہت ضروری ہے۔  نظریہ ارتقاء کے مطابق ارتقاء کا آغاز خلیوں میں موجود جین میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہوتا ہے اس لیے پہلے تو ہمیں خلیوں کے متعلق تمام معلومات ہونی چاہئے جس کے لیے سیل بیالوجی پڑھنی پڑے گی۔ پھر جین کیسے بدلتے ہیں اس کے لیے آپ کو بنیادی مالیکیولر بیالوجی کا علم ہونا چاہئے اس کے علاوہ جین منتقل کیسے ہوتے ہیں اور جین سے متعلق دیگر عوامل کی معلومات کے لیے جینیات کی بنیادی سمجھ بھی ضروری ہے۔ اب جب جین میں تبدیلی آئے

پاکستانی ماہرِ حشرات ڈاکٹر رحمٰن انور سیّد اور ان کی سائنسی دریافت

تصویر
پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر رحمن انور سید بین الاقوامی شہرت رکھنے والے ماہر علم الحشرات تھے۔ آپ اپنی مشہور تحقیق "آئل پام کی حیاتیاتی طریقہ سے پولینیشن" کے باعث دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کامن ویلتھ انسٹیٹیوٹ فار بایولاجیکل کنٹرول کی جانب سے آپ کو ملائشیا میں تعینات کیا گیا جہاں یونی لیور کے چیئرمین نے آپ کی خدمات مستعار لیں اور درخواست کی کہ آپ آئل پام کی پولینیشن کا کوئی حیاتیاتی طریقہ وضع کریں۔ آئل پام صنعتی اعتبار سے انتہائی اہم پودا ہے۔ اسی سے پام آئل حاصل کیا جاتا ہے. مگر اس وقت تک اس پودے کی پولینیشن قدرتی طور پر ہوا سے ہوتی تھی یا پھر ہاتھوں سے کی جاتی تھی جو کہ سست اور مہنگا عمل تھا۔ ڈاکٹر رحمن انور نے دریافت کیا کہ کیمرون(افریقہ) میں ایک طرح کا وی ول (بیٹل) ہے جو وہاں موجود آئل پام پودوں کی قدرتی طور پر پولینیشن کرتا ہے۔ اس سے پہلے دنیا آئل پام کی اس طریقہ سے پولینیشن کے متعلق نہیں جانتی تھی۔1979 میں آپ نے اپنی تحقیق بین الاقوامی جریدے بلیٹن آف اینٹامالیجیکل ریسرچ میں شائع کروائی۔ آپ کے مشورہ پر افریقہ سے آئل پام وی ول ملائشیا

رچرڈ فین مین اور پاکستان کا تعلیمی نظام

  مشہور امریکی نوبل انعام یافتہ طبیعات دان رچرڈ فین مین کو ایک سال کے لیے برازیل میں انڈر گریجویٹ کے طلبا کو پڑھانے کے لیے سرکاری سطح پر تعینات کیا گیا۔ رچرڈ نے اس ایک سال کے عرصے میں برازیل کے تعلیمی نظام کو بہت قریب سے دیکھا اور اپنا تجربہ اپنی آپ بیتی میں بیان کیا جسے پڑھنے کے بعد مجھے ایسا لگا کہ جو کینسر زدہ تعلیمی نظام ستر سال پہلے برازیل میں رائج تھا ہمارے ملک میں آج بھی وہی نظام رائج ہے۔ ایسا لگا کہ وہ ہمارے تعلیمی نظام کی خامیاں بیان کر رہے ہیں۔ آئیے ان کی چیدہ چیدہ باتوں کے بارے میں جانتے ہیں۔ سب سے پہلی بات جو انہوں نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ طلبا نے سب کچھ رٹ رکھا تھا۔ اگر کسی موضوع پر سوال پوچھا جائے تو فورًا لگا بندھا اور رٹا رٹایا جواب دیتے لیکن اسی موضوع کے متعلق ذرا سا گھما پھرا کے سوال پوچھا جاتا تو ان کی بولتی بند ہو جاتی۔ اس سے رچرڈ نے یہ نتیجہ نکالا کہ طلبا نے جو کچھ بھی یاد کر رکھا ہے اس کے مطالب و معانی اور اطلاق سے بالکل ناآشنا ہیں۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ لیکچر کے دوران طلبا مکمل طور پر نوٹس لینے میں وقت صرف کرتے اور کوئی بحث و مباحثہ یا سوال و جواب نہ ہوتے۔