نظریہ ارتقاء کو سمجھنے کے لیے ضروری لوازمات
ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ جب بھی ارتقاء کی بات ہوتی ہے تو ایک لا متناہی بحث کا آغاز ہو جاتا ہے جو کہ فقط بحث برائے بحث بن کر رہ جاتی ہے۔ ایک گروہ نظریہ ارتقاء کی تائید کرتا ہے جبکہ دوسرا گروہ تردید۔ ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کے لیے ہر جتن کام میں لایا جاتا ہے مگر دونوں ہی گروہ اپنے اپنے نظریات پر قائم رہتے ہیں۔
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ ارتقاء کا نام لیتے ہی دو گروہوں کا ٹکراؤ سامنے آتا ہے؟
آئیے اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔
نظریہ ارتقاء ایک دقیق موضوع ہے جس کو سمجھنے کے لیے ہمیں حیاتیات کی عمیق سمجھ کا ہونا بہت ضروری ہے۔
نظریہ ارتقاء کے مطابق ارتقاء کا آغاز خلیوں میں موجود جین میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہوتا ہے اس لیے پہلے تو ہمیں خلیوں کے متعلق تمام معلومات ہونی چاہئے جس کے لیے سیل بیالوجی پڑھنی پڑے گی۔ پھر جین کیسے بدلتے ہیں اس کے لیے آپ کو بنیادی مالیکیولر بیالوجی کا علم ہونا چاہئے اس کے علاوہ جین منتقل کیسے ہوتے ہیں اور جین سے متعلق دیگر عوامل کی معلومات کے لیے جینیات کی بنیادی سمجھ بھی ضروری ہے۔
اب جب جین میں تبدیلی آئے گی تو اس کا اثر جاندار کی ظاہری خصوصیات پر پڑے گا جس کو سمجھنے کے لیے مارفولوجی اور اناٹومی کا علم ہونا ضروری ہے۔ اناٹومی کا علم ہمیں جانداروں میں جسمانی طور پر پائی جانے والی مماثلتیں سمجھنے میں بھی مدد دے گا جو کہ ارتقاء کی بنیادی کڑی ہے۔
اس کے علاوہ یہ سمجھنے کے لیے کہ وہ کونسے ماحولیاتی عوامل ہیں جن کے باعث جینز میں تبدیلی عمل میں آئی ہمیں ماحولیاتی حیاتیات اور ایکالوجی کی بھی بنیادی سمجھ ہونی چاہیے۔
الغرض یہ صرف چند بنیادی علوم ہیں جن پر ہماری مکمل دسترس نہ سہی بنیادی ضرور ہونی چاہئے تبھی ہم کسی حد تک تنگ نظری سے بچ کر نطریہ ارتقاء کو ان علوم کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کر سکیں گے اور تب ہی ہمیں سمجھ آئے گی کہ شواہد کیا ہیں اور قصہ کہانیاں کیا؟
ہم جب بھی ارتقا پر بات کرتے ہیں تو ہم اسے بڑی سطح پر سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور پڑھنے والے کو وہ ایک کہانی کے سوا کچھ نہیں لگتا۔ جب تک ہم ارتقاء کو سمجھنے کے لیے چھوٹی سطح یعنی مائیکرو لیول پر نہیں جائیں گے اور مخصوص مثالوں سے جو شواہد کا درجہ رکھتی ہیں نہیں سمجھائیں گے تب تک پڑھنے والا کنفیوژن کاشکار رہے گا۔ بنیادی حیاتیات کی سمجھ کے نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے لیے یہ تصور کرنا ایک طرح سے نا ممکن ہے کہ بظاہر مختلف نظر آنے والی انواع میں بے شمار مماثلتیں موجود ہیں جو اس بات کا غماز ہے کہ ان انواع کا آپس میں کوئی نہ کوئی رشتہ یا تعلق ضرور ہے۔
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے بنیادی علوم پر کچھ دسترس حاصل کی جائے پھر سمجھنے کی کوشش کی جائے اور پھر بحث کی جائے تو کچھ حاصل بھی ہو گا۔
جب ڈارون نے ارتقاء کی تھیوری پیش کی اس وقت یہ علوم موجودہ نہیں تھے یا بہت کم تھے۔۔۔پھر ڈارون کیسے سمجھا ارتقاء کو۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںاس پوسٹ میں ہر گز یہ بحث نہیں کی گئی کہ نظریہ ارتقا صحیح ہے یا غلط۔ ڈارون نے اس نظریے کو طبعی صورت می سمجھنے کی کوشش کی کیونکہ اس وقت سائنس اتنی ترقی یافتہ نہیں۔ ڈارون کو خود بھی اندازہ تھا کہ یہ معاملہ کس قدر پیچیدہ ہے۔ اور آج سائنس اس نظریے کو مالیکیول کے لیول پہ لے جا چکی ہے اس لیے اس کو بہتر طور سے سمجھنے کے لیے ان علوم سے بنیادی واقفیت ہونا ضروری ہے۔ شکریہ
حذف کریں