دریافت کیا ہے؟

Microscope closeup
خوردبین

دریافت کسی ایسی شے کو دیکھنا جسے سب نے دیکھا ہو مگر اس کے بارے میں ایسا سوچنا جو کسی نے نہ سوچا ہو۔ 
یہ قول ہے ہنگری کے سائنسدان البرٹ جیورجی کا۔۔

آج تک جتنی بھی دریافتیں ہوئی ہیں ان سب کے پیچھے غیر معمولی ذہن کارفرما تھے اور وہ ذہن غیر معمولی کیوں تھے؟ فقط اس لیے کہ ہم جن چیزوں کو دیکھ کے نظر انداز کر دیتے ہیں وہ ان ہی چیزوں پر غور و فکر کرتے ہیں۔ ان اشیاء کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں اور خود ہی ان سوالوں کے جواب بھی تلاش کر لیتے ہیں۔ 

یہاں نیوٹن کی مثال لیجیئے نیوٹن نے گرتے ہوئے سیب کو دیکھا اور ایک کائناتی قانون کی دریافت کر لی۔ کیا نیوٹن سے پہلے کسی نے بھی کسی شے کو زمین کی طرف گرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا؟ جی نہیں دنیا کا ہر شخص واقف تھا کہ ہر شے زمین کی طرف ہی گرتی ہے تو پھر نیوٹن میں ایسی کیا خاص بات تھی؟ خاص بات یہ تھی کہ نیوٹن سوچ رہا تھا۔ وہ ایک سوال کا جواب تلاش کر رہا تھا کہ آخر یہ تمام سیارے سورج کے گرد کیوں چکر کاٹ رہے ہیں اور آخر سورج سے دور کیوں نہیں چلے جاتے؟ اور اسی اثناء میں ایک سیب درخت سے نیچے گرتا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ ہر شے زمین کی طرف کیوں گرتی ہے اور جواب سیب کے گرنے سے مل جاتا ہے کیوں کہ زمین انہیں قوت لگا کر کھینچتی ہے اس قوت کو نیوٹن نے گریویٹی یعنی کشش ثقل کا نام دیا۔

یوں وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ہر کمیت رکھنے والی شے دوسری کمیت رکھنے والی شے کو کھینچتی ہے۔ اور اسی قانون کا اطلاق تمام سیاروں پر ہوتا ہے جو سورج کے گرد گھومتے ہیں۔

بات ہے سوچنے کی۔ خود سے سوال کرنے کی اور خود ہی جواب تلاش کرنے کی۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عظیم پاکستانی سائنسدان اور ان کے سائنسی کارنامے

وائرس کیا ہیں اس قدر مہلک کیوں ہوتے ہیں؟

نظریہ ارتقاء کو سمجھنے کے لیے ضروری لوازمات