رچرڈ فین مین اور پاکستان کا تعلیمی نظام
مشہور امریکی نوبل انعام یافتہ طبیعات دان رچرڈ فین مین کو ایک سال کے لیے برازیل میں انڈر گریجویٹ کے طلبا کو پڑھانے کے لیے سرکاری سطح پر تعینات کیا گیا۔ رچرڈ نے اس ایک سال کے عرصے میں برازیل کے تعلیمی نظام کو بہت قریب سے دیکھا اور اپنا تجربہ اپنی آپ بیتی میں بیان کیا جسے پڑھنے کے بعد مجھے ایسا لگا کہ جو کینسر زدہ تعلیمی نظام ستر سال پہلے برازیل میں رائج تھا ہمارے ملک میں آج بھی وہی نظام رائج ہے۔ ایسا لگا کہ وہ ہمارے تعلیمی نظام کی خامیاں بیان کر رہے ہیں۔
آئیے ان کی چیدہ چیدہ باتوں کے بارے میں جانتے ہیں۔
سب سے پہلی بات جو انہوں نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ طلبا نے سب کچھ رٹ رکھا تھا۔ اگر کسی موضوع پر سوال پوچھا جائے تو فورًا لگا بندھا اور رٹا رٹایا جواب دیتے لیکن اسی موضوع کے متعلق ذرا سا گھما پھرا کے سوال پوچھا جاتا تو ان کی بولتی بند ہو جاتی۔ اس سے رچرڈ نے یہ نتیجہ نکالا کہ طلبا نے جو کچھ بھی یاد کر رکھا ہے اس کے مطالب و معانی اور اطلاق سے بالکل ناآشنا ہیں۔
پھر انہوں نے دیکھا کہ لیکچر کے دوران طلبا مکمل طور پر نوٹس لینے میں وقت صرف کرتے اور کوئی بحث و مباحثہ یا سوال و جواب نہ ہوتے۔ اس پر انہیں حیرت ہوئی کہ آخر اس طرح طلبا کیسے کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ایک طالب علم سے انہوں نے سوال کیا کہ آخر ان نوٹس کا آپ نے کیا کرنا ہے؟ طالب علم نے بتایا کہ انہیں ہم امتحان کے لیے تیار کریں گے۔ رچرڈ نے یہ نتیجہ نکالا کہ طالب علم فقط امتحان میں پاس ہونے کی خاطر پڑھتے اور تیاری کرتے ہیں۔ اور امتحان بھی ایسا لگا بندھا کہ طالب علم کو پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ اس سال پرچہ میں کون سے سوالات پوچھے جائیں گے۔
تیسری اہم بات جو انہوں نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ کچھ بھی کر لیا جائے طالب علم کو سوال کرنے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی سوال کرنا دوسرے لفظوں میں وقت ضائع کرنے کے مترادف تھا۔ جب آپ نے لگا بندھا امتحان پاس کرنا ہو تو سوال و جواب اور بحث و مباحثہ محض وقت کا ضیاع ہی لگتا ہے۔ دوسرا ہر کوئی یہ سمجھتا تھا کہ اسے سب کچھ پتا ہے اس لیے اگر کوئی سوال پوچھ بھی لیتا تو اسے دوسرے طالب علموں کے ہاتھوں سبکی کا سامنا کرنا پڑتا کہ اس میں ایسی کونسی پوچھنے والی بات تھی۔
انہوں نے دیکھا کہ برازیل میں سائنس پڑھنے والوں کی تعداد امریکہ سے بھی زیادہ ہے لیکن سائنسدان نہ ہونے کے برابر جبکہ امریکہ میں چنیدہ لوگ ہی سائنس پڑھتے ہیں اور جو پڑھتے ہیں کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ رچرڈ کو اس کی وجہ ایک ہی نظر آتی ہے اور وہ ہے ناقص تعلیمی نظام۔ انہوں نے آخر میں یہ نتیجہ نکالا کہ برازیل میں سائنس سرے سے پڑھائی ہی نہیں جاتی بلکہ فقط یہ سکھایا جاتا ہے کہ امتحان کیسے پاس کرنا ہے۔
یہ حالت تھی برازیل کے تعلیمی نظام کی آج سے ستر سال پہلے اور ہماری آج بھی یہی حالت ہے۔۔
Reference Book: Surely you are joking Mr. Feynman
آئیے ان کی چیدہ چیدہ باتوں کے بارے میں جانتے ہیں۔
سب سے پہلی بات جو انہوں نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ طلبا نے سب کچھ رٹ رکھا تھا۔ اگر کسی موضوع پر سوال پوچھا جائے تو فورًا لگا بندھا اور رٹا رٹایا جواب دیتے لیکن اسی موضوع کے متعلق ذرا سا گھما پھرا کے سوال پوچھا جاتا تو ان کی بولتی بند ہو جاتی۔ اس سے رچرڈ نے یہ نتیجہ نکالا کہ طلبا نے جو کچھ بھی یاد کر رکھا ہے اس کے مطالب و معانی اور اطلاق سے بالکل ناآشنا ہیں۔
پھر انہوں نے دیکھا کہ لیکچر کے دوران طلبا مکمل طور پر نوٹس لینے میں وقت صرف کرتے اور کوئی بحث و مباحثہ یا سوال و جواب نہ ہوتے۔ اس پر انہیں حیرت ہوئی کہ آخر اس طرح طلبا کیسے کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ایک طالب علم سے انہوں نے سوال کیا کہ آخر ان نوٹس کا آپ نے کیا کرنا ہے؟ طالب علم نے بتایا کہ انہیں ہم امتحان کے لیے تیار کریں گے۔ رچرڈ نے یہ نتیجہ نکالا کہ طالب علم فقط امتحان میں پاس ہونے کی خاطر پڑھتے اور تیاری کرتے ہیں۔ اور امتحان بھی ایسا لگا بندھا کہ طالب علم کو پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ اس سال پرچہ میں کون سے سوالات پوچھے جائیں گے۔
تیسری اہم بات جو انہوں نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ کچھ بھی کر لیا جائے طالب علم کو سوال کرنے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی سوال کرنا دوسرے لفظوں میں وقت ضائع کرنے کے مترادف تھا۔ جب آپ نے لگا بندھا امتحان پاس کرنا ہو تو سوال و جواب اور بحث و مباحثہ محض وقت کا ضیاع ہی لگتا ہے۔ دوسرا ہر کوئی یہ سمجھتا تھا کہ اسے سب کچھ پتا ہے اس لیے اگر کوئی سوال پوچھ بھی لیتا تو اسے دوسرے طالب علموں کے ہاتھوں سبکی کا سامنا کرنا پڑتا کہ اس میں ایسی کونسی پوچھنے والی بات تھی۔
انہوں نے دیکھا کہ برازیل میں سائنس پڑھنے والوں کی تعداد امریکہ سے بھی زیادہ ہے لیکن سائنسدان نہ ہونے کے برابر جبکہ امریکہ میں چنیدہ لوگ ہی سائنس پڑھتے ہیں اور جو پڑھتے ہیں کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ رچرڈ کو اس کی وجہ ایک ہی نظر آتی ہے اور وہ ہے ناقص تعلیمی نظام۔ انہوں نے آخر میں یہ نتیجہ نکالا کہ برازیل میں سائنس سرے سے پڑھائی ہی نہیں جاتی بلکہ فقط یہ سکھایا جاتا ہے کہ امتحان کیسے پاس کرنا ہے۔
یہ حالت تھی برازیل کے تعلیمی نظام کی آج سے ستر سال پہلے اور ہماری آج بھی یہی حالت ہے۔۔
Reference Book: Surely you are joking Mr. Feynman
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں