تخیّل اور سائنس

آئن سٹائن کا مشہور قول ہے '' تخیل علم سے زیادہ اہم ہے۔'' دوسری طرف مشہور نوبل انعام یافتہ طبیعات دان فرینک وِلزیک کہتے ہیں '' دونوں ہی اہم ہیں مگر علم تخیل کی صلاحیت کے بنا بنجر ہے۔'' علامہ اقبال کا بھی مشہور شعر ہے

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی

دیدۂ دل سے مراد بھی تخیل کی آنکھ ہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اہلِ علم کی نظر میں تخیل کی اتنی وقعت کیوں ہے اور خاص طور پر سائنس کی دنیا میں تخیل کا کیا کردار ہے؟

دیکھا جائے تو ہر تخلیقی کام کے پیچھے قوتِ تخیل ہی کار فرما ہوتی ہے۔ ایک ادیب تخیل کو کام میں لا کر شاہکار کہانی تیار کرتا ہے اور پھر اس تخیل کو الفاظ کا جامہ پہنا کر دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اگر ایک شخص تخیل کی صلاحیت سے عاری ہو تو وہ الفاظ کے جوڑ توڑ کر کے کہانی تو لکھ سکتا ہے لیکن ایسی کہانی نہ تو شاہکار کہلائے گی نہ ادب میں خالص تخلیق کا مقام حاصل کر پائے گی۔ اسی طرح ادب کے شاہکاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے بھی قوتِ تخیل درکار ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ بہترین سے بہترین کتاب سے بھی لطف حاصل نہیں کر پاتے کیوں کہ ایسے لوگ الفاظ کو تخیل کا جامہ نہیں پہنا پاتے۔ ان کے لیے وہ کتاب محض الفاظ کا مجموعہ ہوتا ہے جبکہ کچھ اشخاص اسی کتاب کو پڑھتے وقت ایسا محسوس کرتے جیسے کتاب میں کے مندرجات ان کے سامنے وقوع پذیر ہو رہے ہوں۔

شاعر کی بات کیجیئے تو اس کا تو مسکن ہی جہانِ تخیل ہوتا ہے۔ شاعری میں آمد کا مطلب ہی وہ خیال ہے جو بنا سوچے عدم سے آ وارد ہو اور خود بخود ہی الفاظ میں ڈھل کر شاعر کی زبان پہ جاری ہو جائے۔ شاعری تو بہت سے لوگ کرتے ہیں لیکن رہتی دنیا تک جن کا نام گونجے چند ہی ہوتے ہیں جن کے ایک ایک مصرعے میں عمیق تخیل کی جھلک نظر آتی ہے۔

سائنس کی بات کیجیئے تو میں تو یہ کہوں گا کہ جن لوگوں میں قوتِ تخیل موجود نہیں وہ اس علم کو نہ تو سمجھ سکتے ہیں نہ ہی اس کی اہمیت و افادیت کے قائل ہو سکتے ہیں۔

ایک ایٹم کا تصور کیجیئے پھر اس میں موجود الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران کو خیال کے پردے پر ابھارئیے۔ دیکھئیے کیسے الیکٹران مرکزہ کے گرد طواف کر رہے ہیں۔ اگر آپ ایک ایٹم کو تصور کی آنکھ سے دیکھ نہیں سکتے تو اطمینان رکھیے آپ کسی کتاب سے بھی ایٹم کا حلیہ پڑھ لیجئے آپ کے لیے اس کا ادراک ناممکن ہو گا۔ 

تخیل ہی وہ صلاحیت ہے جس کے بل بوتے پر ایک سائنسدان زندگی کی ابتداء کا معمّہ حل کرنے کے لیے کھربوں سالوں کا سفر طے کر کے اس وقت میں جا پہنچتا ہے جب عناصر خود کو ترتیب دے کر بنیادی مالیکیول بنا رہے ہوتے ہیں اور پھر بنیادی مالیکیول ترتیب پا کر پہلا خلیہ بنا دیتے ہیں۔ تخیل ہی وہ آنکھ ہے جو ایک سائنسدان کو اس قابل بنا دیتی ہے کہ وہ ہگز بوسون کی دریافت سے ساٹھ سال پہلے ہی اسے اپنی چشمِ بینا سے دیکھ لیتا ہے اور اس کی موجودگی کو ریاضیاتی مساواتوں سے ثابت کرتا ہے اور پھر دنیا اسی ذرے کو تجربہ کی آنکھ سے دیکھ کر اس شخص کی سچائی کی گواہی دیتی ہے۔

الغرض سائنس کو سمجھنے کے لیے کتابوں اور الفاظ سے زیادہ قوتِ تخیل درکار ہے۔ اسی لیے تو آئن سٹائن نے کہا کہ تخیل علم سے زیادہ اہم ہے۔

آج ہمارا سائنس کا طالب علم سائنس کے بنیادی نظریات اور فطرت میں ان کے اطلاق سے ناواقف ہے کیونکہ وہ صرف کتابوں کے الفاظ کو یاد کرنے میں تمام تر ذہنی صلاحیت صرف کرتا ہے۔  اس میں غلطی ہمارے تعلیمی نظام کی ہے جو فقط الفاظ رٹ کر امتحان میں اعلٰی نمبرات حاصل کرنے والوں کو نوازتا ہے۔ ایسے حالات میں خیالات اور نظریات کی وقعت کم ہو جاتی ہے یوں طلبا کی صلاحیتِ تخیل ماند پڑ جاتی ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عظیم پاکستانی سائنسدان اور ان کے سائنسی کارنامے

وائرس کیا ہیں اس قدر مہلک کیوں ہوتے ہیں؟

نظریہ ارتقاء کو سمجھنے کے لیے ضروری لوازمات